11-Jan-2022-تحریری مقابلہ تعلیم
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
’’علم سیکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت،اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجو جہاد، ناواقف کو سکھانا صدقہ اور اس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ نیز علم تنہائی کا ساتھی، دین کا راہ نما،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اور جنت کی راہ کا مینار ہدایت ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے۔ اور انہیں بھلائی میں راہ نمائی، قیادت و سرداری عطا کرتا ہے۔ جن کی پیروی کی جاتی ہے، وہ بھلائی کے راہ نما ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے اورجن کے افعال کو نمونہ بنایا جاتا ہے۔ فرشتے ان کے دوستی کی خواہاں ہوتے ہیں اور اپنے پروں سے ان کو چھوتے ہیں۔ ہر خشک اور تران کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں، جان دار، خشکیوں کے درندے اور جانور، آسمان اور اس کے ستارے تک۔ علم ہی کے ذریعے اللہ کی اطاعت وعبادت کی جاتی ہے، اس کی حمد وثنا ہوتی ہے، اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے، اسی سے صلہ رحمی کی جاتی ہے، اسی سے حلال اور حرام جانا جاتا ہے۔ وہی راہ نما اور عمل اس کا پیروکار ہے۔ بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘(اوکماقال ﷺ۔
تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا۔انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔عزوۂ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلیے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔چنانچہ سیدنا زید بن ثابت ؓ نے جو کاتب وحی تھے اسی طرح لکھنا سیکھا تھا اسی بات سے ہم اندازہ لگاسکتے ہے کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اوران کا حصول کتنی ضروری ہے۔تعلیم نام ہے کسی قوم کی روحانی اور تہذیبی قدروں کو نئی نسل تک اس طرح پہونچانے کا کہ وہ اس کی زندکی کا جز بن جائے۔جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنا لیئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔
قرآنِ مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر حصول تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ علم کی فرضیت کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’حصول علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ ’’جو شخص طلب علم کے لیے کسی راستے پر چلا، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیا‘‘۔اور یہ بات واضح کر دی گئی کہ قرآنِ مجید سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لیے ہے اس لیے تعلیم ہر صورت حاصل کرنا چاہیئے۔
آج کے دور میں تعلیم کی ضرورت اور اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے لیکن عام تعلیم کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ کمپیوٹر وہ ہی چلے گا جس کو لکھنا پڑھنا آتا ہے۔انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے۔جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد
فراہم کرتے ہیں۔ استاد کی بچوں کو تعلیم دینا بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوگیا بلکہ استاد وہ ہے۔ جو طلباء و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا، ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ آج کے دور میں چند عناصر نے پیشہ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔ ملک میں جگہ جگہ مختلف تعلیمی اداروں کی شاخیں نظر آتی ہیں۔لیکن ان کے اداروں میں میٹرک اور انٹر پاس استاد بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ ایسے افراد کی وجہ سے اس عظیم پیشہ کی قدر و قیمت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ہمارے تعلیمی نظام کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔مسلمان کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سر بلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ دنیا کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگئے۔ آج ہندوستان میں تعلیمی ادارے دشمن طاقتیں کے نشانہ پر ہے، جو تعلیم کی طرف سے مسلمانوں کو بد گمان کرکے قوم مسلم کو کمزور کرنے کے در پہ ہیں۔ہمیں ان کے مقابلے کے لیے کام کرنا ہوگااور اپنے تعلیمی نظام کے مقاصد کو واضح کرنا ہوگا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’حضرت سلیمان علیہ السلام کو اختیار دیا گیا تھا کہ علم،مال اور سلطنت میں جو چاہو پسند کرو،انہوں نے علم کو پسند فرمایا تو مال اور حکومت علم کے ساتھ ان کو عطاہوئی‘‘
’’ہم خدا کی تقسیم پر راضی ہیں جو اس نے ہمارے متعلق فرمائی ہے،یعنی یہ کہ ہمارے لیے علم اور جاہلوں کے لیے مال مقدر فرمایا۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Manzar Ansari
03-Feb-2022 05:15 PM
Good
Reply
Milind salve
11-Jan-2022 11:59 PM
Good
Reply
Shaqeel
11-Jan-2022 08:56 PM
Good
Reply